ماحولیاتی تبدیلی اور بچوں کا مستقبل؟-فاروق احمد انصاری

admissionadmin April 4, 2020 No Comments

فاروق احمد انصاری

زمانہ بدل رہاہے، ماحولیات بھی تبدیلی کی زد میں ہے لیکن خطرے کی بات یہ ہے کہ یہ تبدیلی مثبت کے بجائے منفی نظر آتی ہے۔ آج کے بچے اپنے والدین کے بچپن سے زیادہ درجہ حرارت، فضائی آلودگی اور صفائی کے فقدان کا شکار ہیں۔ یہ نسل جب بڑ ی ہوگی تو اس کی آنے والی نسل اس سے زیادہ ماحولیاتی آفات و حادثات کا سامنا کررہی ہوگی۔

اس کا سیدھا مطلب یہ ہےکہ اگر ابھی ہم نے اقدامات نہ کیےتو وہ ساری سائنس فکشن کی کہانیاں سچ ثابت ہو جائیں گی جن میں ایک تباہ حال، ویران اور قحط زدہ دنیا دکھائی جاتی ہےاور وہاں انسانوں کا گروہ پانی اور سبزے کو ترس رہا ہوتاہے۔ ماضی کے مقابلے میں آج دنیا کا درجہ حرارت بڑھ چکاہے، اس لیے یہ کہنا درست ہوگا کہ آج پیدا ہونےوا لا بچہ پیدائشی طور پر ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے ہرگز محفوظ نہیں ہے۔ اس سے پہنچنے والے نقصانات کا اثر ساری زندگی اس پر رہےگا اور اگر عوامی صحت میں بہتری نہ لائی گئی تو پوری نسل بیمار پڑ سکتی ہے۔

شاید یہی سوچ کر یورپین انویسٹمنٹ بینک نے اقوام متحدہ کے بچوں کے فنڈ (یونیسیف) کے ساتھ شراکت کی ہے تاکہ بچوں کو آب و ہوا میں ہونے والے اثرات سے بچایا جاسکے۔ دونوں فریقوں کے درمیان مفاہمت کی یادداشت پر دستخط ہوچکے ہیں، جس کے تحت انتہائی کمزور بچوں کے لئے معیاری تعلیم اور مہارت کی تربیت میں سرمایہ کاری بڑھانے کو یقینی بنایا جائے گا۔

یورپین انویسٹمنٹ بینک اور یونیسیف، کمیونٹی پر مبنی اسکولوں اور صحت کی سہولیات میں آب و ہوا کی موافقت کے اقدامات اور مالیاتی جدت (Financial innovation)کو فروغ دے گا۔ اس میں سرمایہ کاری کا مقصد دیر تک صاف رہنے والے پانی، حفظانِ صحت اور صحت کے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کی مالی اعانت بڑھانا ہے۔پائلٹ منصوبے جلد ہی یورپ ، وسطی ایشیا اور جنوبی اور مشرقی افریقہ کے ممالک میں شروع کیے جائیں گے۔

مذکورہ یورپین انویسٹمنٹ بینک کے معاشرتی ایجنڈے کا مقصد بچوں اور نوجوانوں کے مستقبل کو زیادہ سے زیادہ اہمیت دیناہےتاکہ انھیں غربت سے بچایا جائے، اس کے ساتھ انھیں ہنر اور تربیت بھی فراہم کی جائے جس کی انہیں سرسبز مستقبل اور ڈیجیٹل دور میں جانے کیلئے ضرورت پڑے گی۔ عالمی سطح پر نوجوانوں کے لئے تعلیم میں معاونت، معقول روزگار کی فراہمی اور آب و ہوا کی تبدیلی سے نمٹنے کی بہت اہمیت ہے۔ یونیسیف کی مہارت اور آپریشنل صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے یورپین انویسٹمنٹ بینک دنیا بھر میں بچوں اور نوجوانوں کے لئے جامع اور مساوی معیار کی تعلیم کو بہتر بنانے اور زندگی بھر سیکھنے کے مواقع کو فروغ دینے میں اپنا کردار ادا کرنے کو تیارہے۔

پاکستان اورفضائی آلودگی

ایئر کوالٹی انڈیکس فضائی آلودگی میں موجود کیمائی گیسز، کیمائی اجزاء، مٹی کے ذرات اور نہ نظر آنے والے کیمائی ذرات کی مقدار ناپنے کا معیار ہے جنھیں پارٹیکولیٹ میٹر(Particulate matter) کہا جاتا ہے۔ ان ذرات کو ان کے حجم کی بنیاد پر دو درجوں یعنی پی ایم 2.5 اور پی ایم 10میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پی ایم 2.5کے ذرات اس قدر چھوٹے ہوتے ہیں کہ وہ نہ صرف سانس کے ذریعے آپ کے جسم میں داخل ہو جاتے ہیں بلکہ آپ کی رگوں میں دوڑتے خون میں بھی شامل ہوجاتے ہیں۔ ورلڈ ایئر کوالٹی رپورٹ 2018ء میں ایشیائی ممالک میں پاکستان کو دنیا اور خاص طور پر جنوبی ایشیا کے سب سے زیادہ آلودہ شہروں کے ساتھ دوسرے درجے پر رکھا گیا۔

بنگلہ دیش اوسطاًسب سے زیادہ آلودہ ملک کے طور پر ابھرا، اس کے بعد پاکستان، ہندوستان ، مشرق وسطیٰ کے ممالک، افغانستان اور منگولیا پہلے 10ممالک کی فہرست بناتے ہیں۔ ’’انتہائی آلودہ شہروں‘‘ کی درجہ بندی سے یہ ظاہر ہوا کہ سب سے آلودہ شہروں کی فہرست میں جنوبی ایشیائی ممالک کا غلبہ ہے، یعنی ہندوستان ، چین ، پاکستان اور بنگلہ دیش کے50شہروں میں اتنی فضائی آلودگی ہے جس کا مقابلہ دنیا کے سارے شہر مشترکہ طورپر بھی نہیں کرسکتے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ مشرق وسطیٰ کے خطے کے متعدد شہر بھی فضائی آلودگی میں اعلیٰ درجہ رکھتے ہیں جیسے کہ کویت سٹی ، دبئی اور مانامہ جہاں عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے رہنما خطوط سے آلودگی 500فیصد سے زائد ہے۔

بچے کیا کرسکتے ہیں؟

ہم فضائی آلودگی کے حوالے سے بچوں کے مستقبل کی بات کریں تو محسوس تو یہی ہوتاہے کہ بچوں پر ہی ان کے مستقبل کو سرسبز بنانے کی ذمہ داری ڈال دی جائے تو یہ زیادہ بہتر ہوگا۔ بچے چونکہ دھن کے پکے اور ہر کام جذبے سے کرنے والے ہوتے ہیں تو کیوں نہ اسکول کی سطح پر انھیں فضائی آلودگی سے آگاہی فراہم کی جائے اور انہیں درخت لگانے کی جانب راغب کیا جائے۔ ہر اسکول جانے والے بچے کو پروجیکٹ کے طور پر لازمی درخت لگانے کا اسائنمنٹ دیا جائے اور اساتذہ ان کی نگرانی کریں اوروہ اتنے ہی جذبے سے بچوں کا ساتھ دیں جتنے جذبے سے بچے اپنا اسائنمنٹ کریں۔

کسی زمانے میں انٹرسائنس کے طلبا کو این سی سی کی ٹریننگ دی جاتی تھی، اسی طرح بچوں کو ہرسال دس دن کے لیے شجر کاری کی ٹریننگ دی جائے اور ان کی مارک شیٹ میں اس کے 10سے 20مارکس شامل کئے جائیں۔ اس طرح بچوں کے مستقبل کو دگنا فائدہ ہوگا اور درختوں کے اضافے سے فضائی آلودگی اور درجہ حرارت میں کمی آئے گی اورہمیں ماحولیاتی تبدیلی سے ہونے والے نقصانات زیاد ہ برداشت نہیں کرنے پڑیں گے۔

Categories : Education
Tags :